بارش اور نباتات کب وجود میں آۓ
اللہ تعالی کے ارشاد كانتا رتقا ففتقنا هماہ کی تفسیر میں حضرت سفیان بن عینہ فرماتے ہیں کہ آسمان بارش نہیں بر سا تا تھا اور زمین کچھ نہیں جاتی تھی پس آسان کو بارش سے اور زمین کو نباتات سے کھول دیا ۔ ا ۔
اللہ تعالی حساب سے بارش برساتے اور ہوا چلاتے ہیں
( حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا * ما انزل الله عزوجل من السماء كفا من ماء الابمكيال ولا يسوق الله عز وجل كفا من ريح الا بوزن ومكيال . الايوم نوح عليه السلام فانه طغى الماء على الخزان ، قال الله عز وجل انا لماطغى الماء حملناكم في الجارية ويوم عاد فانه عتت الريح على الخزان قال الله تعالى بريح صرصر عاتية٢٥ ( ترجمہ ) اللہ تعالی نے ہتھیلی پھر پانی بھی آسان سے پیائش کر کے اتارا ہے اور اللہ تعالی نے ہتھیلی پھر ہوا بھی وزن اور پیائش کے ساتھ چلائی ہے ۔ سواۓ حضرت نوح علیہ السلام کے عذاب کے دن میں کیونکہ اس دن پانی سر کش ہو گیا تھا ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کر دیا تھا ۔ اور قوم عاد کے عذاب کے دن کیونکہ اس دن ہوا سرکش ہو گئی تھی جو نگران فرشتوں کی گرفت میں نہیں رہی تھی ۔ ( اس کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ ( قوم عاد ایک تیز و تند ہوا سے ہلاک کئے گئے تھے
بارش زمین کی روح ہے
حضرت کعب فرماتے ہیں کہ بارش زمین کی روح ہے ۔
موتی کیسے پیدا ہوتے ہیں
حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی موتیوں کو سیپ میں بارش سے پیدا کرتے ہیں جب آسمان سے بارش ہوتی ہے اس وقت سیپ اپنے مومنہ کھولتے ہیں بڑا موتی بڑے قطرے سے بنتا ہے اور چھوٹا موٹی چھوٹے قطرے سے بنتا ہے ۔ ۲ ۔ ( فائدہ ) به روایت حضرت سعید بن جبیر کے واسطہ سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے ۔ ۳ ۔
بارش کا قحط گناہوں کی وجہ سے ہو تا ہے
حضرت حسن بصری نے ایک مرتبہ بادل کی طرف دیکھ کر فرمایا « فیه والله رزقكم ولكنكم تحرمونه بخطايا كم واعمالکم * ۴ - ( ترجمہ ) خدا کی قسم اس میں تمہارا رزق ہے مگر تم اپنے گناہوں اور اعمال کی وجہ سے اس سے محروم کئے جاتے ہو ۔
قرآن اور بارش بابرکت ہیں
حضرت میمون بن مهران فرماتے ہیں کہ برکت قرآن اور بارش کے پانی میں ہے اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں کتاب انزلناه اليك مباركاه ( ترجمہ ) یہ ( قرآن ) ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے
ونزلنا من السماء ماء مباركا * ( ترجمہ ) اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی ( بارش ) اتاری ہے ۔ ا ۔
بارش رحمت ہے ، قحط ناراضگی ہے
( حدیث ) حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مامطر قوم الابرحمة ، ولا قحطوا الا بسخطة ٢ ( ترجمہ ) جس قوم پر بھی بارش برسی ہے رحمت ہی کی وجہ سے بر سی ہے اور ان پر اگر ( بارش کایا کسی اور قسم کا قحط ہوا ہے تو وہ ( اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے ہوا ہے ۔
لولے کہاں سے آتے ہیں
حضرت کعب فرماتے ہیں کہ اگر اولا بادل سے گرنے کی بجاۓ سیدھا چوتھے آسمان سے گرے تو جس نئے پر پڑے اس کو ہلاک کر ڈالے ۔۳ ۔
بارش کے پانی میں مینڈک کیوں ہوتے ہیں
اسماعیل بن سمیع کہتے ہیں کہ ایک رات ہم پر بارش ہوئی تو اصحاب سامری کے پاس والے کنویں میں مینڈک ظاہر ہونے لگے میں نے ابو مالک غفاری سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ خشک زمین پر رات کو بارش ہوتی ہے تو صبح کو زمین پر سبر مینڈک نظر آنے لگتے ہیں ؟ ( یہ کیسے ہو تا ہے ؟ ) تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما نے فرمایا کہ اس آسان اور اس سے اوپر والے آسان اور ان کے درمیان جو پانی ہو تا ہے اس میں ایسے ہی پر ندے اور جانور ہوتے ہیں جس طرح سے تمہارے پانی میں ہوتے ہیں ( اس لئے بارش کا پانی جب کسی جگہ جمع ہو تا ہے تو یہ مینڈک نظر آنے لگتے ہیں )
بارش متعین مقدار پر بر سائی جاتی ہے
( آیت ) * وما ننزله الا بقدر معلوم ( اور ہم بارش کو معلوم مقدار کے مطابق نازل کرتے ہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کوئی سال دوسرے سال سے زیادہ بارش والا نہیں ہو تابلکہ اللہ عزو جل بارش جس طرح چاہیں پھیر دیں ( کبھی زیادہ کبھی کم کبھی یہ بارش سمندر پر بھی ہوتی ہے ۔ بارش کے ساتھ اتنے فرشتے نازل ہوتے ہیں جو بارش کے قطرات کے گرنے کے مقامات کو بھی لکھتے ہیں اور جن کو اس سے رزق ملنا ہے اور اس سے جوا گنا ہے ۔
بارش کا پانی ابتداء عرش کے نیچے سے اتر تا ہے
حضرت خالد بن معدان فرماتے ہیں کہ بارش ( ابتدائی طور پر عرش کے نیچے سے گرتی ہے جو اس پہلے آسمان کی طرف اترتی ہے اور ایک جگہ جمع ہو جاتی ہے اس جگہ کا نام ' ' ابر م ' ' ہے پھر سیاہ بادل وہاں آ کر اس سے سیراب ہوتے ہیں ( پھر ان سیاہ بادلوں سے زمین پر بارش ہوتی ہے )
رعد ( کرک ) - برق ( بحلی )
ر عد فرشتہ اور اس کی آواز ( حدیث ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہودی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا اے او القاسم ! ہم آپ سے پانچ چیزوں کے متعلق پوچھتے ہیں اگر آپ نے ان کے بارے میں بتادیا تو ہم جان لیں گے کہ آپ نبی ہیں اور ہم آپ کی اتباع کر یں گے ، انہوں نے کہا آپ ہمیں بتائیں رعد ( کرک ) کیا ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جس کو بادل کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کے آگ کے کوڑے ہیں جن سے وہ بادل کو وہاں ہانک کر لے جاتا ہے جہاں اللہ تعالی چاہتے ہیں انہوں نے پوچھا وہ آواز کیا ہے جس کو ہم بادلوں سے سنتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا یہ فرشتہ کا بادل کو ڈانٹنا ہے جب وہ بادل کو ڈانٹا ہے تو وہ بادل ادھر پہنچتا ہے جہاں کا اس کو حکم دیا گیا ہوتا ہے۔ا۔
کڑک فرشتہ کی تسبیح ہے
( آیت ) ( ويسبح الرعد بحمده » [ سورة الرعد / ۱۳ ] ( ترجمہ ) عد اللہ تعالی کی حمد کے ساتھ تسبیح ادا کرنا ہے ۔ حضرت ضحاک اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک فرشتہ ہے جس کا نام رعد ہے اور اس کی آواز دہ ہے جس کو تم سنتے ہو میں اس کی تسبیح ہے ۔ ۲ ؎
بحلی فرشتوں کے کوڑے ہیں
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ( بادلوں سے چپکنے والی بجلی کوڑے ہی جو فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جب وہ بادل پر بر ساتے ہیں تو بجلی اور اس کی چمک نظر آتی ہے
زعد فرشتہ کے مونہ سے آگ گرتی ہے
شهر بن حوشب فرماتے ہیں کہ رعد ایک فرشتہ ہے بادل کی ذمہ داری اس کے سپرد ہے یہ بادل کو اس طرح سے ہانک کر لے جاتا ہے جس طرح سے گا کر اونٹوں والا اونٹ کو لے جاتا ہے جب کوئی بادل مخالفت کر تا ہے تو یہ اس وقت چیختا ہے جب اس کا غصہ تیز ہو تا ہے تو اس کے مدینہ سے آگ گرتی ہے یہی وہ آواز میں ہیں جن کو تم سنتے ہو ۔ ۲ ۔
قمر کی گرج
خلیفہ سلیمان بن عبد الملک میدان عرفات میں وقوف کر رہے تھے جبکہ ان کے ساتھ حضرت عمر بن عبد العزیز بھی موجود تھے جب بادل گرجتا تھا تو سلیمان گھبرا کر اپنار خسار اونٹ کے پالان کے سرے پر رکھ دیتے تھے ان کو حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا یہ گرج تور حمت کو ساتھ لائی ہے پس اس وقت کیا حال ہوگا اگر یہ قہر خداوندی کو ساتھ لے آۓ ۔۳ ؎
گرج اور چمک کے وقت کی دعا
( حدیث ) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جب گرج اور کڑک کو سنتے تھے تو یہ دعا فرماتے تھے ﴿ اللهم لا تقتلنا بغضبك ولا تهلكنا بعذابك وعافنا قبل ذلك) ۱۲ - ( ترجمہ ) اے اللہ ! ہمیں اپنے غضب سے قتل نہ کرنا اور نہ اپنے عذاب سے ہلاک کر بابلکہ اس سے قبل ہمیں معاف کر دینا ۔
گرج کے وقت ذکر اللہ کا فائدہ
( حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمايا و اذا سمعتم الرعد فاذكروا الله فانها لاتصيب ذاكرا ا ۔ ( ترجمہ ) جب تم بادل سے ( فرشتہ کی ) گرج سنو تو اللہ تعالی کو یاد کرو کیونکہ میں گرج ذکر کر نے والے کو کوئی نقصان نہیں پہنچاۓ گی ۔
گرج ہمیں کیوں سنائی دیتی ہے
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنما جب گرج سنتے تھے تو اپنی بات روک کر فرماتے تھے کہ یہ ( گرج ) زمین والوں کے لئے قہر خداوندی سے ڈرانے کے لئے ہے ( جو تمہیں سنائی دیتی ہے ورنہ رعد فرشتہ کی آواز کور عد کی طرح مخفی رکھا جا تا )
سبحان الله و بحمدہ کا ایک فائدہ
حضرت عبد اللہ بن ابی زکریا فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جو شخص بادل سے گرج کی آواز سنے اور سبحان الله وبحمدہ کے اس کو وہ آواز کوئی نقصان نہ پہنچاۓ گی ( نہ کانوں کی نقل ساعت میں اور کسی اور شکل میں الا ماشاء اللہ ) ۔ ۲ ۔ ،
قرب قیامت آسمانی بجلی سے بھی لوگ مر یں گے
( حدیث ) حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ علیہ نے ارشاد فرمايا تكثر الصواعق في آخر الزمان حتى يقال من صعق الليلة » ا ( ترجمہ ) آخر زمانہ میں تیز گرج سے موتیں اکثر واقع ہوں گی حتی کہ کہا جانے لگے گا کہ آج رات کون مراتھا ؟ ( فائدہ ) صواعق کا سدی نے آگ سے معنی کیا ہے ۔ ۲ ۔ پھر حد یث بالا کا معنی یہ ہو گا کہ آخر زمانہ ( قرب قیامت میں اکثر لوگوں پر رات کو آسمانی بجلی گرا کرے گی اور صبح کو لوگ پوچھا کر یں گے کہ رات آسمانی بجلی سے کون بھسم ہوا ہے ۔