زمین کو اٹھانے والی مخلوقات
سکین کیا ہے
( آیت ) : كلا ان كتاب التجار تي سحین کی تفسیر میں حضرت محمد ۔ فرماتے ہیں تین ساتھ میں زمین کے نیچے دوزخ میں ایک چینمان ہے اس کو الٹا کر اس کے نیچے بد کاروں کے اعمال نامے سے جاتے ہیں ۔ ۲ ۔
زمین کی تخلیق
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سب سے پے نہ وی کے قلم کو پیدا کیا اور اسے حکم دیا کہ لکھ اس نے کہا یا رب کیا لکھوں فرمایا جو کچھ تقدیر میں ہے سب لکھو تو قیامت تک ہونے والے امور کو قلم نے سکھایا ۔ حضرت ان عباس رضی اللہ عنما فرماتے ہیں کہ پھر پانی بلند ہوا تو اس سے کسانوں کو پیدا فرمایا پھر نون ( مچھلی کو پیدا فرمایا جس پر زمین قائم ہے پھر اس پر نشان کو بچھا دیا جب مچھلی نے حرکت کی تو زمین بھی حرکت میں آگئی اس لئے اللہ تعالی نے پیاروں کو ( زمین میں گاڑ دیا اس سے پاڑ زمین پر فخر کرنے لگے کہ انہیں کی وجہ سے زمین کو ساکن کیا گیا
زمین کو بیت اللہ شریف سے پھیلایا گیا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے بیت اللہ شریف کو چار زاویوں کے ساتھ پانی پر رکھا گیا بچے بیت اللہ شر نی کے نیچے سے زمین کو پھیلایا گیا ۔ ۲ ؎
زمین کو اٹھانے والی مخلوقات
حضرت کعب سے روایت ہے کہ ساتوں زمینیں ایک چٹان پر ہیں اور چنان یک فرشتہ کی ہتھیلی پر ہے اور یہ فرشتہ مچھلی کے پر کے اوپر ہے اور مچھلی پانی میں ہے اور پانی ہوا پر ہے اور ہوا بڑی ہوا پر ہے اور یہ ایسی ہوا ہے جس سے کوئی پیداوار میں ہوتی اس ہوا کے کنارے عرش سے لگے ہوۓ ہیں ۔ ۳ ۔ ۱۴۱
زمین ، آسمان اور پہاڑ کیسے وجود میں آۓ
حضرت وہب فرماتے ہیں کہ اللہ عزو جل نے ساتوں آسمانوں کو دھو میں سے پیدا کیا یہ دھواں زمین کے ساتھ جڑا ہوا تھا جب اللہ تعالی نے ان دونوں ( تنی آسان زمین ) کو بلایا تو انہوں نے دعوت پر ل بیک کہی اور اس کے حکم کی تعمیل کی چھرانہ تعالی نے آسمان کو حکم دیا تو وہ اوپر چلا گیا اور زمین کو ہوا کی طرف کھینچا اور حکم دیا ؟ وہ پھیل گئی اور اس کا پھیلاؤ کعبہ سے شروع ہوا پھر ہوا کو پیدا کیا اور اس کو پھیلا دیا جس نے پانی پر پہنچ کر اس کو موج در موج اور جھاگ بنادیا اور پانی سے دھواں اور خارات ہوا میں اڑنے لگے پھر جب وہ وقت آ گیا جس کا اللہ عزو جل نے ارادہ کیا تھا تو جھاگ کو حکم دیا تو وہ منجمد ہو گئی پھر اس سے زمین کو پیدا کیا اور موجوں کو حکم دیا تو وہ منجمد ہو گئی اور ان کو گڑے ہوۓ پہاڑ بنادیا پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھواں کی حالت میں تھا تو اس کو اور زمین کو فرمایا جانتیا طوعا او كرها قالتا اتينا طائعین کے ( تو دونوں خوشی سے آؤ یا زبر دستی سے آؤ مطلب یہ ہے کہ ہمارے احکام تکوینیہ جو تم دونوں میں جاری ہوا کر میں گے مثلا آسان میں اس کے بعد ہی تغیر ہو نے والا تھا کہ اس کے ایک مادہ سے سات آسمان بننے والے تھے اور زمین میں بے انتا تغیر قیامت تک چلے جائیں گے تو ان کا جاری ہو تا تو تمہارے اختیار سے خارج ہے لیکن جو ادراق و شعور تم کو عطا ہوا ہے اس سے تمہاری حالت کے مناسب رضا و عدم رضادونوں کا حق ہو سکتا ہے جیسے مرض یا موت انسان کے لئے کہ باوجود غیر اختیاری ہونے کے کوئی اس پر راضی ہے کوئی ناراض سو تم دیکھ لو کہ ہمارے ان احکام پر راضی رہا کرو گے یا کراہت کرو گے ؟ ] دونوں نے عرض کیا کہ ہم خو شی سے ان احکام کے لئے حاضر ہیں ) ۔اور ہر آسان میں اس کے متعلق احکام جاری کئے اور ان کو جداجدا کیا اور ہر زندہ شئے کو پانی سے پیدا کیا ۔ ا کانام بر قیعا رکھا اور اس کو حکم دیا کہ تو سبز زمرد ہو جا تو وہ ایسا ہی ہو گیا اور س سے آسمان کا نام ” ار قلون " رکھا اور اس کو حکم دیا کہ تو سفید چاندی ہو جا تو وہ ہو گیا اس میں ایسے فرشتے مقرر کئے جب سے اللہ عزو جل نے ان کو پیدا کیا ہے قیام کی حالت میں ( عبادت کر رہے ہیں اور تیسرے آسمان کا نام ” قید وم ' ' ہے س کواللہ تعالی نے حکم دیا کہ تو سرخ یا قوت ہو جا تو وہ ( سرخ یا قوت ) ہو گیا پھر اس میں رکوع کی حالت میں فرشتے متعین کئے ان کے کند ھے ان کی صفوں سے مختلف نہیں ہوتے ان فرشتوں کی صفیں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح سے می ہوئی ہیں کہ اگر ان پر پانی کا ایک قطرہ بھی گرے تو اس کو بھی نکلنے کا راستہ نہ ملے اور چوتھے آسمان کا نام ' ' ما عونا ' ' ہے اس کو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تو سنسید گوہر بن جا تو وہ بن گیا پھر اس پر ایسے فرشتے مقرر کئے جور کوع والے فرشتوں کی طرح سجدہ کی حالت میں میں پانچو میں آسمان کا نام ” ریعا ' ' ہے اس کو فرمایا کہ تو سرخ سو نا ہو جا تو وہ ہو گیا پھر اس کو ایسے فرشتوں سے آباد کیا جن کی مسافت پیٹ کے لحاظ سے ہے اور ان کے چہرے اور پاؤں آسمان کے نچلے آخری کنارہ پر اور ان ک ے سر قرمیں آسمان کے سامنے والے کنارہ تک ہیں یہ اللہ عزوجل کے خوف سے روتے ہیں اس لئے ان کا نام الملائكة النواحين ( رونے والے فرشتے رکھا ہے ساتھ میں آسمان کا نام ” فتا ' ' رکھا ہے اسے حکم فرمایا کہ تو یا قوت اصفر ہو جا تو وہ ہو گیانیے اس میں سجدہ ریز فرشتے مقرر کئے جن کے جوڑ پر کتے اور سر جیتے ہیں ان کی آواز میں بلند ہیں جن سے وہ اللہ سبحانہ وتعالی کی تسبیح اور نقد لیں بیان کرتے ہیں کہ یہ اپنے پاؤں کے بل کھڑے ہوں تو ان کی ٹانگیں ساتھ میں کچی زمین تک جا پہنچیں اور سر اوپر والے ساتھ میں آسمان تک جائیں یہ قیامت کے دن رب العالمین کے سامنے اپنے پاؤں کے بل کھڑے ہوں گے ساتھ میں اوپر والے آسمان کا نام ” عر بیا ' ہے اس کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ تو نور ہو جا تو وہ چمکنے والا نور ہو گیا پھر اس پر ایسے فرشتے بساۓ جو اللہ عزوجل کی تعظیم اور قرب اور خوف کی وجہ سے ایک پاؤں پر کھڑے ہیں اور ان کے پاؤں ساتو میں نچلی زمین سے بھی نیچے تک چلے گئے ہیں اور
۔ ساتوں آسمان اور ان کی مخلوقات
ابو عثمان نهدی فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ ہمیں آسمانوں اور زمین اور ان کے عجائبات کے متعلق ارشاد فرما میں ؟ تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالی نے سات آسمان بنائے اور ان کے نام رکھے اور ہر آسمان میں ایک قسم کے فرشتے ٹھہراۓ جو اس کی عبادت کرتے رہیں ہر آسمان کی طرف اپنے احکامات جاری کئے پس اس آسمان دنیا ان کے یہ قدم ساتو میں نچلی زمین کے نیچے ہیں ( دیکھنے سے ایسے لگتا ہے جیسے وہ سفید جھنڈے میں ان کے نیچے تیز ترین ہوا چلتی ہے جو جھنڈوں ( کی مانند کے فرشتوں کے نظر آنے والے اجسام کو اٹھاۓ ہوئی ہیں ان فرشتوں کے سر عرش کے نیچے ہیں مگر عرش تک نہیں پہنچ سکے ان کی عبادت کے یہ کلمات ہیں لا اله الا الله ذو العرش المجيد ، سبحان ذي الملك والملكوت ، سبحان ذي العرش ، ، سبحان ذي الجبروت سبحان الحي الذي لايموت ، سبحان الذي يميت الخلائق ولايموت سبوح قدوس رب الملائكة والروح ، قدوس قدوس سبحان ربنا الاعلى ، سبحان ذي الجبروت والملكوت والكبرياء و العظمة والسلطان والنور ، سبحان ابد الآبدین ﷺ پر یہ فرشتے مؤمن مرد اور خواتین کے لئے استغفار کرتے ہیں پھر دوبارہ اپنی ( سابقہ ) تسبیح و تحمید کی طرف لوٹ آتے ہیں ان فرشتوں کی کی حالت ہے جب سے پیدا ہوۓ قیامت تک کے لئے ، اور میں تفسیر ہے اس ارشاد خداوندی کی « وانا لنحن الصافون وانا لنحن المسبحون ( اور ہم صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور ہم پاکی بیان کرنے میں بھی لگے ہوۓ ہیں ) ۔ ا ۔ ( فائدہ ) فرشتوں کے متعلق تفصیلی حالات اور سوال جواب ہماری دوسری کتاب ” فرشتوں کے عجیب حالات می ں ملاحظہ فرمائیں
ہر زمین پر انبیاء کی مثل اکابر ہیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما فرماتے ہیں کہ ہر زمین پر تمہارے آدم کی طرح ( ایک باوا آدم ہے اور تمہارے نوح کی طرح ایک فوح ہے ۔ ۲ ؎ یعنی ہر زمین پر کچھ مرتبہ کے لوگ رہتے ہیں جن کے بڑے حضرات حضرت آدم و حضرت نون کے مر تبہ پر فائز ہوئے اور اپنی اپنی قوم کی قیادت کرتے ہیں ۔ ۳ ۔کائنات میں آنحضرت محمد ﷺ ایک ہی ہیں نہ آپ کے نام میں کوئی ایسا شر یک ہے نہ مر تبہ اور نہ منصب میں تفصیل کے لئے حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی کتاب ” تحذیر الناس ‘ ‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔ ( امداد اللہ )