google.com, pub-9512838060178876, DIRECT, f08c47fec0942fa0 چوٹی کے دودھ کی تاریخ کیا ہے؟

چوٹی کے دودھ کی تاریخ کیا ہے؟

NapkHealth
0

 چوٹی کے دودھ کی تاریخ کیا ہے؟

چوٹی کے دودھ کی تاریخ کیا ہے؟

دودھ انسانوں کی سب سے پرانی خوراک ہے ۔ جب سے انسانوں کو موسیٹی پالنے کی سجھائی آئی ۔ انھوں نے اس وقت سے ان کے دودھ سے فائدہ اٹھانا بھی سیکھ لیا ۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں دیوتاؤں اور پیغمبروں نے انسانوں کو دودھ سے فائدہ اٹھا نا سکھا یا ۔ شط العرب کے شہروں میں آج سے ۵۰۰۰ سال قبل دودھ کو نہ صرف یہ کہ  قاعدہ استعمال کیا جاتا تھا بلکہ شہروں سے با ہرایے کارخانے قائم تھے جہاں دودھ کو صاف کر کے شہروں میں مہیا کیا جاتا تھا ۔ پھران سے دہی ، پنیرا ور گھی بنا کر سپلائی ہوتا اور اس تاریخ سے پہلے ڈیری فارموں کا سراغ ملتا  یے

ڈیری دودھ بار کی تاریخ

 ہندوستان  کے لوگ اگر چہ زمانہ قدیم میں بھی دودھ پیتے تھے لیکن اس کا با قاعدہ استعمال ایشیائے کو چک سے آریوں کی آمد کے بعد شروع ہوا ۔ چونکہ گاۓ ان کا ذریعہ معاش بن چکی تھی اس لیے بعد والوں نے اس کی عزت میں روز بروز اضافہ کرتے ہوئے ماں کا رتبہ دے دیا کرشن جی مہاراج کا زیادہ تر تعلق دودھ کا کاروبار کرنے والی خواتین سے رہا ہے ۔ اور ان کو مکھن بہت پسند تھا ۔ توریت مقدس نے انسان کی زمین پر آباد کاری کے تذکرہ کے ساتھ پہلے باب پیدائش ہی میں دودھ کا ذکر متعد  دمقامات پر کیا ہے ۔ کرشن جی مہاراج کے زمانہ میں بھی دیہات کے وہ لوگ جن کی اپنی زمین نہ ہوتی تھی یا کم زمین   کے باعث گزارا نہ کرسکتے تھے ، گائیں پال کران کا دودھ فروخت

خمیر شدہ دودھ کی تاریخ

کر کے اضافی آمدن حاصل کرتے تھے ۔ یہ شوق ابتدائی دور کے مشرقی افریقہ میں بھی ملتا ہے ۔ البتہ مشرق بعید کے مالک کو دودھ سے واقفیت ہونے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔ اگرچہ یہ دیر سے اس میدان میں آئے ہیں لیکن آسٹریلیا اورنیوزی لینڈ دنیا بھر میں دودھ اور اس کی مصنوعات کے معاملے میں اپنا مقام رکھتے ہیں ۔ امریکہ میں پہلی گاۓ ان میں جمس ٹاؤن کے آبا دکاروں نے درآمد کی ۔ اور اس کے بعد سلسلہ اتنی ترقی کر گیا کہ شام میں پنیر بنانے کی ایک فیکٹری نیویارک سٹیٹ میں قائم ہوئی ۔ وہاں پر پنیر آج کل اننا مقبول ہے کہ امریکہ کے دودھ کی کل پیدا وار کا ۲۴ فیصدی پنیر بنانے میں صرف ہوتا ہے ۔ ان کے یہاں تو دودھ کی رغبت سے نا جائزہ  فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی ستم ظریف نے ایک مرتبہ مشہور کرد یا کر خواتین کے دودھ میں توانائی کی موجودگی کسی بھی عمر کے لوگوں کے لیے کارآمد ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ کئی غریب عورتیں اپنا دودھ بچے کو پلانے کی بجاۓ دکانوں پر فروخت کرنے لگیں ۔ لیکن یہ بیہودہ شوق چند دنوں میں ختم ہو گیا ۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں زیادہ تر گائے کا دودھ مقبول ہے اوراسی غرض سے عمدہ سے عمدہ گائیں پالنا اوران کے دودھ میں اضافہ کرنا ایک صنعت کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ ایک عام امریکین گاۓ روزانہ ایک من دودھ دیتی ہے کہتے ہیں کہ اس صلاحیت میں ہر سال بہتری پیدا کی جارہی ہے ۔ گائیں پالنے اور ان کے دودھ سے فوائد حاصل کرنے والے ممالک میں ارجنٹائن ، ڈنمارک انار دے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ عالمی اہمیت رکھتے ہیں ۔ بھینس کا دودھ شمالی ہندوستان میں زیادہ تر مقبول ہے ۔ بلکہ پنجاب میں کوئی بھی دودھ پینے والا تندرستی کی حالت میں گائے کے دودھ کو پسند نہیں کرتا ۔ بھینس کا دودھ گاڑھا ، اس میں چکنائی زیادہ لحمیات زیادہ اور پانی کم ہوتا ہے ۔

صبح دودھ کی چائے پینے کے فائدے

اس کا مکھن سفید ، اور ایک عام بھینس  روزانہ بیس  لیٹر دودھ دیتی ہے اور اس سے ایک کلو مکھن نکل سکتا ہے ۔ بھینس  امریکہ اور افریقہ میں بھی ہوتی ہے لیکن ان ممالک کی بھینس کا حلیہ ہمارے یہاں کی بھینس سے تھوڑا سا مختلف اور عادات برعکس ہوتی ہیں ۔ وہاں پر بھینس وحشی درندوں میں شامل ہے ۔ حتی کہ عرب میں جاموس " سے مراد بھینس کی شکل کا ایک وحشی جانور ہے ۔ اس نسل کی بھینسوں کا دودھ برائے نام ہوتا ہے پنجاب میں بھینس کا دودھ توانائی کا مظہر سمجھا جاتا ہے کشتی لڑنے والے پہلوان اپنی طاقت میں اضافہ کے لیے بھینس کا دودھ اور گھی کثرت سے استعمال کرتے ہیں ۔ حامل عورتیں کمز دری کو دور کرنے کے لیے اور زچگی کے بعد بھینس کا دودھ اور گھی پسند کرتی ہیں ۔ ان میں سے اکثر کو زیادہ چکنائی کے استعمال سے خون کی نالیوں اور دل کی بیماریوں کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔ پنجاب کے لوگ چائے میں بھی گاۓ کا دودھ پلتلا ہونے کی وجہ سے پسند نہیں کرتے 

بکری کے دودھ کے کیا فائدے ہیں؟

۔ دیہات میں بکریاں پالنے کا رواج موجود ہے لیکن بکری کا دودھ کوالٹی میں عمدہ ہونے کے باوجود مقبول نہیں ۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ پینے کے لیے بکری کے دودھ کو پسند فرمایا ۔ اردو محاورے میں بکری کا دودھ جی ضرب المثل رہا ہے جیسے کہ بز اخفش : ہندوستان میں بکری کو شہرت مہاتما گاندھی سے ہوئی ۔ یہ بھارتی را ہنما ساری زندگی بکری کا دودھ پیتے رہے اور جب انگلستان گئے تو اپنی بکری ساتھ لے گے  ہندوستان کے متعدد گھرانوں میں بچوں کو اگر ماں کا  دودھ میسر  نہ ہو تو بکری کا دودھ پلاتے تھے میرے اپنے خاندان میں ایک بچے کی پرورش کے لیے بکری خریدی

روزانہ دودھ پینے کے کیا فائدے ہیں؟

۔ گئی جسے وہ قالین دالے کمرے میں باندھتے تھے ۔ بھیٹر کا دودھ چکنائی میں بھینس سے گاڑھا ہوتا ہے ۔ ہمارے یہاں کے پینے والے اسے پسند نہیں کرتے ، کہتے ہیں کہ اس میں سے خاص قسم کی ناگوار بدو آتی یے  ،چین  روس اور تبت کے بعض علاقوں میں گھوڑوں کا دودھ بڑا پسند کیا جاتا ہے ۔ منگول ہمیشہ گھوڑیوں کا دودھ پیتے تھے ۔ اس میں چکنائی بڑی تھوڑی ہوتی ہے اس لیے جلد ہضم ہوتا ہے اور توانائی دینے میں اہمیت رکھتا ہے ۔ کوہ ہمالیہ کے دامن میں سرا گائے ہوتی ہے ۔ یہ قد میں عام گاۓ سے چوٹی اور جسم پر پہاڑی بکرے کی مانند ملبے بال ہوتے ہیں ، پہاڑی علاقوں میں گانے کی طرح کا ایک جانور پاک پایا جا تا ہے ۔ بعض کے نزدیک میسرا گائے کی قسم ہے ۔ اس کے دودھ میں چکنائی گاۓ سے زیادہ لیکن دودھ کم ۔ وہاں کے لوگ اس جانور کو اس حد تک پسند کرتے ہیں کہ پاک کا گوبر سکھا کر چائے میں بھی ڈالتے اور مرنے سے پیتے ہیں  ہندوستان کے مغربی گھاٹ کے علاقہ اور مرہٹہ  اقوام میں گدھی کا دودھ بڑا پسند کیا جاتا ہے ۔ ہم نے بمبئی میں گوالے دیکھے ہیں جو گتھیوں  کی قطار لیے بازار میں آواز لگا کر گدھی کا دودھ فروخت کرتے تھے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پرانے وید گدھی کا دودھ تپ دق کے مریضوں کو دوا کے طور پر دیتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ یہ دودھ جسمانی کمزوری کے لیے مفید ہے ۔ کیمیاوی ساخت کے لحاظ سے گنیا کا دودھ اچھی چیز قرار دیا جاتا ہے ۔ لیکن وہ لوگ جو کہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی میں کتے پالتے ، ان کا منہ چومتے بلکہ اپنے ساتھ سلاتے ہیں ان کو بھی یہ دودھ پیتے سنا نہیں گیا ۔ اس کی غالیا وجہ یہ ہے کہ

صبح دودھ پینے کے فائدے

کتا رکھنا ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے اوراس کے دودھ سے بھی صحت کے کچھ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ غذا میں حلال اور حرام کا تصور اسلام نے دیا ہے ۔اسلام نے حرام جانوروں کا دودھ بھی حرام قرار دیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کو نہیں مانتے اور اس کے حلال و حرام کو اس عہد میزان میں جہالت کی بات سمجھتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی کسی حرام جانور کا دودھ نہیں پیتا ۔ ہم نے پوری دنیا میں کوئی ٹی درندوں ، شورینیوں ، بلیوں وغیرہ کا دودہ بنتا نہیں دیکھا ۔ اور یہ واقعہ اس امرکا ایک اہم ثبوت ہے کہ وہ اسلام کے فلسفہ حلال وحرام پر معترض ہونے کے با وجود اپنی عملی زندگی میں اس پر عمل کرتے ہیں

Tags

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)