پانی کے استعمال کی کارکردگی کی کیا اہمیت ہے۔
پانی الماء WATER دنیا میں سب سے زیادہ پائی جانے والی چینر پانی ہے ۔1 ابتدائی سالوں میں پانی کے کھیل کی اہمیت
اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا کے کل رقبہ کا تین چوتھائی پانی پر مشتمل ہے اور ایک چوتھائی میں خشکی ہے ۔ پانی کی مقدار کو ۳۳۰ ملین مکعب فٹ قرار دیا جاتا ہے جس میں سے ، ۹ فیصدی نمکین سمندری پانی کی صورت میں ہے ۔ یہ پانی شورا در نمکین ہونے کی وجہ سے قابل شرب نہیں لیکن سمندری حیوانات اس میں پلتے اور زندہ رہتے ہیں ۔ کچھ سمندر ایسے بھی ہیں جن میں نمکیات کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ جانور بھی ان میں زندہ نہیں رہ سکتے ۔ جیسے کہ مشرق وسطی میں بحیرہ مردار ۔ دنیا کے بقایا پانی میں سے دو فیصدی قطبین سائبیریا اور دوسرے برفانی علاقوں میں منجمد برف کی صورت میں ہے ۔ اور صرف ایک فیصدی دریاؤں ، جھیلوں ، ندی نالوں اور تالابوں کی شکل میں ملتا ہے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ سمندروں میں نمک کی مقدار انسانی جسم میں پائے جانیوالے نمکیات سے براہ راست تناسب میں ہے ۔ حیوانات اور نباتات کے اجسام کا معقول حصہ پانی پر مشتمل ہے جسم انسانی کا دو تہائی 2/3 پانی ہے ۔ جدید تحقیقات سے یہ بات اب معلوم ہوئی ہے کہ کرہ ارض پر زندگی کی ابتداء بھی پانی سے ہوئی ۔
ہماری زندگی میں پانی کی اہمیت
: قرآن محمد نے فرمایا (کیا نہیں دیکھا ان لوگوں نے جنہوں نے کیا کہ آسمان اور زمین کے منہ بند تھے اوران دونوں کے دروازے کھولے گئے اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے بنایا ) پانی سے زندگی شروع ہوتی ہے اور وہی اس کا غالب جزو ہے اور اسی پر مدار حیات ہے ۔ ایک عام انسان کو اپنی صفائی ، گھر کی صفائی کھانا پکانے اور پہیے کے لیے روزانہ تیس گین پانی کی ضرورت ہے اس کو وقتی طور پر کم تو کیا جاسکتا ہے لیک مستقل طور پر ایسا کرنے سے تندرستی متاثر ہوسکتی ہے ۔ جیسے کہ یورپ میں جسمانی اور ذاتی صفائی کارواج نہیں ۔ رفع حاجت کے بعد مصفا پانی سے جسم کو دھونا اسلام کی ایجاد ہے ، اور پھتروں ، مٹی کے ڈھیلوں یا کاغذوں سے غلاظت ہرگز دور نہیں ہوتی ۔ غلاظت جسم سے چپکی رہ جاتی ہے ۔ بالوں میں پھنس جاتی ہے اور بعد میں جلد کی مقامی بیماریوں کا باعث ہوتی ہے ۔ رفع حاجت کے بعد جسم کو پانی سے ھونے اور باقاعدہ نہانے والے کو جلد کی اکثر بیماریاں نہیں ہوتیں ۔ پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں ۔ بیان میں اسے بے رنگ کہا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس کی مقدار زیادہ ہو تو نیلگوں نظر آتا ہے ۔ لیکن بڑے ذخیروں میں رنگ میں تھور فرق آجاتا ہے ۔ چین کے دریائے یانگسی کو دریائے زرد کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پانی کا رنگ پہاڑوں سے یہ کر آنے والی مٹی کی وجہ سے زر دلگتا ہے ۔ اس کی گذرگاہ میں مٹی اتنی زیادہ ہے ک سالانہ اڑھائی انچ مٹی اس کی تر میں بیٹھ جاتی ہے یہی صورتحال نہروں کی ہے کیونکہ ان میں دریاؤں کا پانی آتا ہے اور وہ اپنے کناروں کی مٹی بھی کاٹ کر اپنے میں شامل لے آتی ہیں
پانی کے بخارات کی کیا اہمیت ہے؟
فضا میں پانی کے بخارات کی کیا اہمیت
پانی کی بیماریاں ۔۔ پینے والے پانی کے بارے میں شدید توجہ کی ضرورت ہے ۔ اگر اس میں جب انما غلافات موجود ہوں تو متعدد مہلک بیماریوں کا باعث ہوسکتا ہے ۔ بہت مدت ہوئی شہر لاہور کے اندرونی علاقہ کے پانی میں کسی طرح تپ محرقہ کے جراثیم داخل ہو گئے ۔ چوک سرجن سنگھ سے لے کر اڈبی بازار اور دہلی دروازہ تک ہزاروں اشخاص اس میں مبتلا ہو گئے ۔ راوی روڈ پر گوردت بھون کے کنوئیں میں اسہال کے جراثیم داخل ہونے سے چارسوافراد ہیضہ میں مبتلا ہو گئے ۔ اگر پینے والا پانی آلودہ ہو تو ایک ہی وقت میں ہزاروں افراد بیمار ہوتے ہیں ۔ اسی لیے شہروں میں پینے والے پانی کو صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ اس میں روزانہ کلورین ملائی جاتی ہے اور روزانہ اس کا معائنہ کیا جاتا ہے تا کہ اس میں کوئی ملاوٹ اگر شامل ہو جایے تو اسے بروقت دور کر لیاجاہے
۔ پانی کی صفائی :
۔ یا قدرت نے پانی کو کبھی کمیاوی طور پر خالص صورت میں مہیا نہیں کیا ۔ زیر زمین پانی میں وہ تمام کیمیات موجود ہوں گی جو اس علاقہ میں پائی جاتی ہیں یہی صورت حال دریاؤں اور جھیلوں میں ہے ۔ ماہرین کیمیا پانی میں موجود اجزاء کو اس کے بھاری پی HARDNESS قراردیتے ہیں ۔ نمکیات کی موجودگی کی ایک شکل عاریتی ہے ۔ اور دوسری منتقل پینے کے لیے ایسے پانیوں میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ البتہ صضستی مقاصد میں کئی جگہ پانی میں پائے جانے والے نمکیات پسند یدہ نہیں ہوتے ۔ جبکہ ان نمکیات کی موجودگی انسانوں کے لیے مفید ہے ۔ بعض اوقات پانی میں فولاد ، سکہ ، ہائیڈروجن سلفا کیڈمیم ادسنکھیا بھی ملتے ہیں جو صحت کے لیے مضر ہیں ۔ کیونکہ ان کا وجود پانی سے نہیں ۔
بلکہ پانی کی ٹینکی یا آب رسانی کی نالیوں کی وجہ سے ہوتا ہے میں مسلسل توجہ کی ضرورت رہتی ہے ۔ پانی کو صاف کرنے کا آسان طریقہ اسے ابالنا ہے ۔ اس سے اکثر و بیشتر جراشیم مر جاتے ہیں ۔ ابن القیم نے سمندری پانی کو صاف کرنے کی ایک مفید ترکیب بیان کی ہے ۔ پانی کے ہگیچہ کو آگ پر رکھ کر اوپر کونی موٹا اوفی کمبل یا نمدا رکھ دیا جائے پانی کے نجارات اڑ کر اوفی کپڑے میں جمع ہوں گے ۔ بعد میں اسے نچوڑ کر استعمال کر لیا جائے ۔ بارش کا پانی دس منٹ کی بارش کے بعد پینے کے لیے محفوظ ترین پانی ہے ۔ کیونکہ قدرت نے اسے عمل کشید کے ذریعہ تیارکیا ہے لیکن ابلاہوا اکشید کردہ پانی مسلسل پیٹے سے نمکیات کی کمی لاحق ہو جائے گی ۔ فیصل آباد کے شہریوں کو پہلے نہر کا پانی دیا جا تا تھا جسے ریت اور بجری کی تہوں سے گزار کر صاف کر لیا جاتا تھا ۔ اب شہروں کا پانی گہرائی سے حاصل کیا جاتا ہے جس میں غلاظت کے امکانات کم ہیں ۔ چھوٹی جگہوں پر کاورین کے مرکبات یا پانی صاف کرنے والی ہے ۔ ان گولیوں کے بعد پانی میں بدبو آنے لگتی ہے ۔ ایک دن بعد پڑ جاتی رہتی ہے ۔ گولیاں ایک مفید طریقہ دیہات اور جھوٹی جگہوں پر رہنے والوں کے لیے پانی صاف کرنے والی گولیاں یا اسے ابال کر استعمال کرنا ہی مسئلہ کا حل ہے ۔ ان سے ان ترکیب ممکن نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہم نے سمندر کے پانی کو پاک قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنی منار کی وجہ سے گندا نہیں ہوسکتا ۔ کہ یہاں تک فرما دیا کہ اگر آپ اس سے صاف نہ ہوے ۔ تو ان پر اس سے آگے کچھ نہیں ۔
پانی کی اہمیت
در پانی انسانی زندگی کا جزولا نیفک ہے ۔ انسانی ہم میں گرچہ پانی کافی مقدار میں موجود ہوتا ہے لیکن یہ جسم کے اندر خالص صورت میں نہیں ملتا ۔ یہ نامیاتی مرکب کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے کہ خون کا بیشتر حصہ پانی مشتمل ہے لیکن اس کے ساتھ لحمیات ، خون کے خلیات اور نمک ہوتے ہیں ۔ اسی طرح معدہ اور منہ کے لعاب ، آنسو وغیرہ بھی پانی مشتمل ہیں ۔ پسینہ اور دوسری خارج ہونے والی چیزوں کے ذریعہ پانی کی کثیر مقدار نکل جاتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی رہتی ہے کہ جسم میں پانی کی آمد و رفت کے درمیان ایک باقاعدہ تناسب موجود ر ہے ۔ اگر اسہال اور قے کی قسم کی بیماریوں یا ہیصنہ کی وجہ سے جسم سے پانی کی زیادہ مقدار نکل جائے تو اس کیفیت کو EEHYDRATION کہتے ہیں ۔ پانی نکلنے سے خون کاڑھا ہو جاتا ہے ۔ پیشاب کا اخراج کم یا بند ہو جاتا ہے جس سے زہریں جسم میں سرایت کرکے موت کا باعث بن سکتی ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ سلم نے ایسی کیفیت میں باربارہ شہد پلا کر بیماری کے سیب اور پانی کی کمی کا بیک وقت علاج فرمایا ۔ جب دل کی طاقت ماند پڑ جائے یا گردوں یا مگر میں خرابی پیدا ہوکر جسم سے پانی کے اخراج اور نمکیات کاساس سلسلہ درہم برہم ہو جائے تو پیٹ میں پانی پڑتا ہے جسم پر سوجن آجاتی ہے اور زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جسمانی صفائی ، غمسل ، برتنوں کی صفائی ، لباس کی صفائی کے لیے پانی در مفید قرار دیا وہاں اس کے استعمال میں کفایت کو بھی محفوظ رکھنے کی تاکید فرمائی ۔ ایک ارشاد گرامی کے مطابق اگر وضو کرتے وقت تمھارے سامنے بھرا ہوا دریا بھی ہو تو پانی ضائع نہ کرو
شہروں میں لوگ ضرورت کے بغیر نلکے کھنے رکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں جس ضرورت مندوں کو کم پانی میسر سکتا ہے ، پانی کا سارا سلسلہ ایک گول چکر کی مانند ہے ۔ سمندروں ، جھیلوں اور نباتات سے پانی بخارات بن کر اڑا ۔ پھر بارش کی صورت زمین پر واپس آیا در دریا بن گیا یا زمین میں جذب ہو کہ زیر زمین پانی کی صورت ٹیوب ویل اور پمپوں کے ذریعے باہر آ گیا ۔ لاہور کے مشاہدات میں دیکھا گیا ہے کہ اگر لگا تار کچھ عرصہ بارش نہ ہو تو زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے ۔ پانی کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے جنت میں جن علمدہ چیزوں کے مہیا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ان میں سے ایک پانی بھی ہے ۔