google.com, pub-9512838060178876, DIRECT, f08c47fec0942fa0 ہماری زندگی میں مچھلی کی اہمیت درج کریں۔

ہماری زندگی میں مچھلی کی اہمیت درج کریں۔

NapkHealth
0

ہماری زندگی میں مچھلی کی اہمیت درج کریں۔

ہماری زندگی میں مچھلی کی اہمیت درج کریں۔

مچھلی  حوت سمك

 مچھلی  کے ساتھ انسانوں کی دلچسپی  تقریبا اسی دن سے قائم ہے ۔ جب سے انسان زمین پر باقاعدہ آباد ہوا اور اس نے یہاں کی چیزوں کو اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرنا سیکھا ۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ زمین پر مچھلی  کا وجود پچھلے ۴۵ کروڑ سال سے موجود ہے ۔ ماہرین حیاتیات نے جانوروں کو دوا ہم قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک وہ جانور جو موسموں  کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جیسے کہ انسان اور اکثر چو پاۓ ۔ گردونواح کا موسم خواہ  زیادہ گرم ہو یا ٹھنڈا . ان کے اجسام اپنے درجہ حرارت کو ایک خاص حد تک قائم رکھ سکتے ہیں ۔ جبکہ دوسری قسم کے حیوانات موسمی تغیرات کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ جیسے کہ مرغابی گرمی برداشت نہیں کر سکتی ۔ اکثر کیڑے مکوڑے سردی کے موسم میں چھپ جاتے ہیں ۔ اور جن کو مناسب جگہ نہ ملے وہ ختم ہو جاتے ہیں ۔ مجھیلی ان جانوروں میں سے ہے جو موسمی تغیرات کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ اس گروہ کو اصطلاحاً کہتے ہیں ۔ انسانوں کو اب تک مچھلی  سے دلچسپی غذا کے طور پر تھی ۔ سمندروں ، دریاؤں اور جھیلوں کے قریب رہنے والے معمولی کوشش سے مچھلیاں پکڑ کر اپنے لیے ایک اچھی اور مناسب غذا مفت حاصل کرتے رہے ہیں ۔ بنیادی طور پر مچھلی کا جسم لمبا . چوڑائی اور موٹائی کم جسم کے درمیان ریڑھ کی ہڈی اور جسم کے دونوں سرے گاؤ دم ہوتے ہیں ۔ لیکن پا مغربیت کی شکل بالکل نقالی کی مانند ہوتی ہے ،

ہماری زندگی میں مچھلی کی اہمیت درج کریں۔

اگرچہ  سامنے کی طرف اس کا منہ اور پیچھے دم ہوتی ہے مگر یہ دونوں بھی اس خوبصبورقی سے نصیب ہیں ھکہ اس کی گولائی زیادہ طور متاثر نہیں ہوتی ۔ مچھلیوں کی جسامت ، شکل صورت ، نسل کشی ، عادات ملکہ سانس لینے کا طریقہ ہر قسم اور علاقہ میں مختلف ہے ۔ ایک عام مجھیلی سانس لینے کے لیے ہمہ وقت منہ سے پانی بہتی اور گپھڑوں کے راستہ مسلسل با ہر نکالتی رہتی ہے ۔ اس عمل کے دوران وہ پانی میں حل شدہ آکسیجن اپنے لیے نکال لیتی ہے ۔ ضرورت کے مطابق آکسیجن حاصل کرنے کے لیے اسے مسلسل پانی لینا اور نکالنا پڑتا ہے ۔ ملکہ و و بی عمل نیند کے دوران بھی جاری رکھتی ہے ۔ لیکن کیچڑ میں رہنے والی ڈولہ مھپلی  کے ایک طرف گلپھڑے ہوتے ہیں ۔ اور دوسری طرف مینڈک کی مانند ا یک پھیپھڑا  ہوتا ہے ۔ اس آدھا تیترا اور آدھا بٹیر  والی ساخت کے باعث وہ زیادہ دیر پانی کے اندر نہیں رہ سکتی کیونکہ اس کا ایک گلپھڑا نصف صلاحیت کی بنا پر زیادہ عرصہ کے لیے کارآمد نہیں ۔ رہ سکتا اور اگر وہ پانی سے باہر  رہنما چا ہے تو اس کا ایک پھیپھڑا  زیادہ دیر تک ساتھ نہیں دے سکتا ۔ عام مچھلی  زیادہ آکسیجن  میں زندہ نہیں رہ سکتی اس لیے جب وہ پانی سے باہر نکلتی ہے تو فورا ہی دم گھٹنے سے ہلاک ہو جاتی ہے جبکہ ڈولہ مچھلی  پانی سے با ہرکافی دیر زندہ رہ سکتی ہے ۔ وہیل مچھلی کو علما حیاتیات مچھلی کی بجائے گاۓ قرار دیتے ہیں ۔ بڑی قسم کی وہیل برفانی سمندروں میں رہتی ہے اور سانس لینے کے لیے ہر آدھ گھنٹے کے بعد پانی کی سطح کے اوپر آ جاتی ہے ۔ اوپر کر وہ تازہ ہوا کی ایک کثیر مقدار جسم می ذخیرہ کر لیتی ہے یہ ذخیرہ اس کی آدھ گھنٹہ کی ضروریات کے لیے کافی ہوتا ہے ۔

 مچھلی اور ملیر یا 

۔۔ میر یا پیدا کرنے والا مچھر ٹھرے پانی میں انڈے دیتا ہے ۔ اس لیے کھڑے پانی کا ہر جوہڑ تالاب اور جھیل مچھر پیدا کرنے کی فیکٹری بن جاتی ہے ۔ زمانہ قدیم میں پانی کے ان ذخیروں اور دلدلوں کے قریب رہنے والوں کو ملیر یا زیادہ ہوتا رہا ہے ۔ ہندوستان کے علاقہ ناگپور ، آسام ، بنگلہ دیش میں دریاؤں کے ڈیلیٹے اور زیریں سطح کے علاقے ہمیشہ سے اس بخار کی آماجگاہیں رہی ہیں ۔ جب سے مچھر کے ملیریا پھیلانے کی خباثت کا پتہ چلا ہے ، صحت عامہ کے ماہرین کوشش کر رہے ہیں کہ آبادیوں کے قریب کھڑے پانیوں کے ذخیرے نہ ہوں ۔ پانی کو نکال دینا یا گڑھوں کو مٹی ڈال کر ایک مشتمل  ترکیب ہے لیکن جہاں پانی زیادہ ہو اور ذخیرے کو خالی کرنا ممکن نہ ہو ، افزائش کو رد کنے کے لیے وہاں پر سنکھیا کا ایک مرکب پیرس گرین یا مٹی کانیل باڈیزل آئل

یا بے ٹیکس یا کر یا زوٹ ڈالنی ضروری ہے ۔ یہ مہنگا اور باقاعدہ کا خرچہ ہے ۔ ۔ چینی سائنس دانوں نے اس کی آسان صورت میں نکالی ہے کہ ان ذخیروں میں مچھلیاں پرورش کی جائیں ۔ مچھلی اپنی عادت کے لحاظ سے مچھر کے بچے کھاتی ہے ۔ اس لیے میں پانی میں مچھلی ہو گی اس میں مچھر پیدا نہیں ہوتے ۔ اس سے سالوں پہلے ہندو پاک کی مساجد کے تالابوں میں لوگوں نے گولڈ فش نامی سنہری مچھلیاں ڈالی ہوئی تھیں کسی مسجد کے تالاب میں کبھی مچھروں کی افزائش نہیں ہوئی ۔

خوراک میں تیل والی مچھلی کی اہمیت

مچھلی کا تیل اور غذائی افادیت : ۔ ایک عام تھیلی میں ۸۰ فیصدی پانی اور ۲۳ - ۱۴ فیصدی کے درمیان لحمیات اور نائٹروجن کے دوسرے مرکبات ہوتے ہیں ۔ معدنیات میں کیلسیم ، فاسفورس تانبہ  اور آیوڈین ملتے ہیں ۔ ان میں حیاتین کی مقدار اکثر جانداروں سے زیادہ ہوتی ہے ۔ مچھلیوں میں ترقی چکنائی کی مقدارا اس کی قسموں کے مطابق تبدیلیاں رہتی ہے ۔ اگر چہ ان میں کولیسٹرول اور شحمی  تریشے موجود ہوتے ہیں لیکن وہ کسی طرح نقصان دہ نہیں ہوئے ۔ کولیسٹرول کی مقدار برائے نام ہوتی ہے ایسے مشاہدات

بھی ملتے ہیں جن سے ماہرین کا خیال ہے کہ مچھلی  سے حاصل ہونے والی چکنائیاں اور تیل جسم میں موجود کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتے ہیں ورنہ حیوانی ذرائع سے حاصل ہونے والی تمام چکنائیاں دل اور کولیسٹرول کی زیادتی کے برانیوں کے لیے مضر ہیں ۔ مچھلی  کا تیل  ایک مشہور ٹانک ہے ۔ چھوٹی مچھلیاں  دریا میں آئی ہوئی نباتات  کھاتی ہیں ۔ خاص طور پر کافی میں ایک سبز ماده ہے جو ہضم ہونے کے بعد وٹامن اے میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ بڑی مچھلی  چھوٹی مچھلی  کو کھاتی ہیں اور اس طرح ان کے جگر  میں وٹامن اے ‘ ‘ کا ذخیرہ و جاتا ہے ۔ پہلے خیال یہ تھا کہ تیل کی بہترین قسم اور زیادہ مقدار کاڈ مچھلی  کے جگر میں ہوتی ہے ۔ اس تیل کے ایک چھوٹے چمچہ میں وٹامن اے کے ۴۵۰۰ یونٹ ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ۵۰۰ یونٹ وٹامن ڈی بھی ہوتی ہے ، پہلے یہ تیل ناروے اور نمارک سے آتا تھا ۔ پھر  ماہی گیری کرنے والے دوسرے ملکوں خاص طور پر برطانیہ نے بھی برآمد شروع کر دی ، پاکستان اور ہند میں بہتر کی تیل برطانوی کمپنی سیون سیر کا قرار دیا جانا رہا ہے ۔ اس کے بعد پاکستان کے ایک ادویاتی ادارے نے پہلے مچھلی کا تیل بھر اس کا شربت تیار کیا ، جن کا مسیر  آنا ہمیشہ  غیریقینی رما ۔ اب حکومت نے جواد و یہ منوع کی ہیں ان میں مچھلی کا تیل بھی شامل ہے جسم کو زکام ، کھانسی سے محفوظ رکھنے اوران کے علاج کے لیے ایک لا جواب اور قابل اعتماد چنیر  رہی ہے ۔ اس میں برائی مچھلی  کی بد ہوتی لیکن دو ایک مرتبہ پینے کے بعد بدلو کی ناگواری ختم ہو جاتی تھی ۔ مزید تحقیقات پر معلوم ہوا کہ شارک اور ہیلی بٹ کے جگر میں اس وٹامن کی مقدار  کاڈ سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔

اطباء قدیم کے مشاہدات : 

۔ حکیم نجم الغنی خان ایک تھیلی کا احوال لکھتے ہیں جو چار سو گز تک اڑتی یے ، اور بحیرہ قلزم میں پائی جاتی ہے ۔ مچھلی کا گوشت نازک اور لطیف ہوتا ہے ۔ اس لیے باسی ہونے پر بادی اور مضر صحت بن جاتا ہے ۔ ” فردوس الحکمت میں بہترین مچھلی  دہ قرار دی گئی ہے جو چلتے پانی میں رہتی ہو ۔ ان کے نسخہ کے مطابق مچھلی کو پانی کی جگہ دہی میں پگانے  اور تھوڑی سی تھیٹکڑی ڈال کر پکانے سے اس کے کانٹے گل جاتے ہیں ۔ ایک اور نسخہ میں دہی کے ساتھ سمندر جھاگ کے بڑے بڑے ٹکڑے دیگچی میں ڈال دیں دم بخت کر کے پگائیں بہترین اور مفید  مچھلی سالن میں ہے کیونکہ یہ جلد  ہفم  ہو تی ہوتی ہے ۔ جبکہ تلی ہوئی زودہفم  ہے ۔

Tags

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)