از دواجی زندگی میں بیوی اور اسکے والدین کی ذمہ داری
شادی سے قبل لڑکی اپنے والدین کے گھر رہتی ہے .... اسے اپنے والدین کی مرضی ۔ کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے ...
. شادی کے بعد وہ اپنے خاوند کے گھر چلی جاتی ہے تو نہ صرف اس کا ماحول بدل جاتا ہے بلکہ اس کے فرائض میں بھی تبد یلی آجاتی ہے ..
. اے ۔ چاہئے کہ اب اس گھر کی بھلائی اور خیر خواہی کو مدنظر رکھے .... جہاں اسے مستقل طور پر رہنا ہے .... اپنے خاوند کی خوشنودی کو مقدم رکھے .... یہاں تک کہ اگر شوہر اور والدین کی خواہش میں تضاد ہوتو اول تو ہوشمندی سے اس تصادم کو دور کرنے کی کوشش کرے
۔ اپنے شوہر اور والدین سے اپنے اپنے رویے میں قدرے لچک پیدا کرنے کیلئے کہے اور اگر ان میں افہام وتفہیم پیدا نہ ہو سکے تو شوہر کا ساتھ دے کیونکہ اسے مستقل طور پر اس کے ساتھ رہنا ہے لیکن اگر اس نے والدین کی مرضی کو اولیت دی تو ممکن ہے کہ اس کی عائلی زندگی خطرے میں پڑ جائے یا کم از کم اس میں تناؤ پیدا ہو جائے ....
. لڑکی کے والدین کو بھی چاہئے کہ داماد کو جھکانے کی ضد پر قائم نہ ر ہیں بلکہ ان میاں بیوی کو ان کے حال پر چھوڑ دیں .... انہیں اپنی اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش نہ کر میں شادی شدہ زندگی کے ابتدائی سالوں میں بیوی جوان اور نا تجربہ کار ہوتی ہے ... وہ خود بھی ماں کی باتوں میں بآسانی آجاتی ہے اور اس کی ماں بھی چاہتی ہے کہ اپنے دامادکواپنی اپنے خاوند کو اپنے قبضے میں لے سکتی ہے ۔
مرضی کے مطابق ڈھال کے ... پھر اپنی بیٹی کو الٹی سیدھی باتیں سکھاتی ہے کہ کس طرح وہ اپنے خاوند کو اپنے قبضے میں لے سکتی یے ان حالات میں اگر دامادا پنی ساس کے مشوروں کو اہمیت دینے لگ گیا تو سسرال والے ہے اور اس طرح نیا جوڑا اپنی شادی شدہ زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی پریشانیوں اور الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے ...
. بات مار پٹائی اور جھگڑا اورفساد تک پہنچ جاتی ہے ۔ لڑکی کی ماں کو چاہیے کہ اپنا ایسا رویہ ترک کر دے .... بیٹی کو خاوند کی خواہش کے مطابق اس کا ساتھ نبھانے کی رغیب دلا ... اپنی بیٹی کی موجودگی میں ایسی بات بھی منہ سے نہ نکالے کہ جس سے بیٹی سمجھنے لگے کہ یہ شادی دراصل میرے ساتھ زیادتی ہے ....
مثلا میں نے بیٹی اس لڑکے سے بیاہ کے بہت بڑی غلطی کی ہے ... میری بیٹی کی تو قسمت ہی خراب نکلی... میری بہن کی بیٹی اپنے گھر میں ٹھاٹ سے رہتی ہے جبکہ میری بیٹی تو قسمت کو روری ہے ۔ میرا بھیجا تو اپنی بیوی کیلئے طرح طرح کے لباس اور تحائف لاتا ہے .
.. میری بیٹی کسی سے کوئی کم تو نہیں مگر اس کی تو قسمت ی خراب نکلی کہ کنجوس سے پالا پڑ گیا ... یہ ساری باتیں سن سن کر لڑکی کے دل میں خاوند کی محبت ماند پڑ جاتی ہے وہ خاوند سے بدظن ہو جاتی ہے ... گھر یلو معاملات اور میل جول میں سردمہری کا مظاہرہ کرتی ہے ...
پھر بہانے بہانے سے شوہر سے جھگڑا کرتی ہے ... یہ حالات اس وقت خراب ہو جاتے ہیں جب لڑکی کی ماں بھر پور طریقے سے اپنی بیٹی کی حمایت کرتی ہے اور ہٹ دھری کے سبب بیٹی کا گھر برباد کرنے اور طلاق دلوانے سے بھی گریز نہیں کرتی ... شادی شدہ بیٹیوں کی ماؤں کو سوچنا چاہئے کہ ہمدردی کی آڑ میں وہ اپنی بیٹیوں سے دشمنی کیوں کر رہی ہے ...
. کیا جو کچھ وہ اپنی بیٹیوں کیلئے چاہتی ہے وہی کچھ اپنی بہو کیلئے بھی پسند کرتی ہے اگر وہ چاہتی ہے کہ اس کا دامادا پنی سسرال کا دست نگر اور اطاعت گزارر ہے تو کیادہ اپنے بیٹے کیلئے بھی پسند کرے گی کہ وہ بھی اپنے سسرال کا ایسا ہی فرمانبردار بن کر رہے اوران کے اشاروں پر چلے ... اگر وہ بیٹوں کے متعلق نہیں چاہتی ہے تو پھر داماد سے بھی دست بردار ہو جائے ... بیوی کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے والدین کی باتوں کو سن تو لے مگر بلا سوچتے ان پر عمل کرناشروع نہ کر دے بلکہ ان پرغورکرے ..
. اپنے گھر کے نفع نقصان کو سمجھتے عمل کرنے سے پہلے ان کے نتائج پر غور کرے .... اپنی خدمت اور محبت کے ساتھ اپنے شوہر کو راضی رکھے .... اس میں اس کی بھلائی اور بہتری ہے ....
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے تم میں سے بہترین عورت وہ ہے جس زیادہ بچے ہوں ، شوہر سے محبت کرنے والی ہو پاک دامن اور با حیاء ہو اپنے شوہر کی مطیع اور فرمانبردار ہو اپنے شوہر کیلئے آرائش کرے خود کو غیروں سے محفوظ رکھے .... اپنے شوہر کی ۔ بات سے اور اس کی اطاعت کرے ...
. جب دونوں تنہا ہوں تو اس کے ارادے پرعمل کرے لیکن ہر حال میں شرم وحیاء کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے .... ضروری ہے کہ عورت گھریلو زندگی میں جس مقام پربھی فائز ہے چاہے وہ ساس ہے ۔ بہو ہے ماں ہے بہن ہے بھاوج ہے نند ہے ہر حال میں دوسروں کی بھلائی چاہے جو کچھ و اپنے لئے پسند نہیں کرتی اسے دوسروں کیلئے بھی پسند نہ کرے ..
.. یہی اللہ پاک کے حبیب ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اور یہی ایمان کی علامت ہے .. اللہ تعالی ہم سب کو اس عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ... ( مثالی سرمثالی داماد )