google.com, pub-9512838060178876, DIRECT, f08c47fec0942fa0 پریشان خواتین کیلئے تسکین بخش تحریر

پریشان خواتین کیلئے تسکین بخش تحریر

NapkHealth
0

 پریشان خواتین کیلئے تسکین بخش تحریر 

پریشان خواتین کیلئے تسکین بخش تحریر


نو بہن بھائیوں میں میرا ساتواں نمبر تھا ۔ میرے بڑے بھائی نے میٹرک کیا ہی تھا کہ والد کا انتقال ہو گیا ۔ والدر میلوے میں تھے ۔ ان کی جگہ بھائی کونوکری پر رکھ لیا گیا لیکن آٹھ بہن بھائیوں کی تعلیم اور شادیاں کرنا بہت مشکل تھا ۔ اس لئے سب نے دسویں تک تعلیم حاصل کی اور سب کی ترتیب وارشادی ہوتی گئی ۔ جب میرا نمبر آیا تو میرے لئے لاہور سے ایک رشتہ آیا ۔ دو بھائی ایک بہن تھی لڑ کا سرکاری نوکری کرتا تھا ۔ ہمارے خاندان سے خوش حال لوگ تھے ۔ شریف لوگ تھے اس لئے والدہ نے ہامی بھر لی اور یوں میں بیاہ کر لا ہورآ گئی ۔ شادی کی پہلی رات جو بات میرے شوہر نے مجھ سے کی وہ یہ تھی کہ میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ یہ شادی میرے ماں باپ نے زبردستی کی ہے ۔ صائمہ تم کسی بھی قسم کی خوش فہمی  میں مت رہنا اور میں جس لڑکی کو پسند کرتا ہوں اس سے شادی کر چکا ہوں ۔ پر میرے گھر والے نہیں مانتے ان کا اصرار ہے کہ میں اس لڑکی کو چھوڑ دوں ۔ لہذا اگر تم مجھ سے کسی بھی قسم کے اچھے رویے یا برتاؤ کی توقع کو زیادہ بہتر ہے ۔ یہ کہ کر و سوادر میں حیران رہ گئی کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ خیر صبح ولیمہ تھا ۔ ولیمہ میں میرے گھر والوں نے پشاور سے آتا تھا ۔ لہذا شوہر نے دھمکی دے دی کہ اگر تم نے اپنے گھر والوں کو کچھ بتایا تو اس وقت طلاق دے دوں گا ۔ میں سہم گئی اور چپ چاپ دہن بننے کی تیاریاں کرنے لگی ۔ اب شادی کے کچھ دنوں کے بعد میری مار پٹائی کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ ناصر بات بے بات مجھے ہارتے میرے ساس سسر بہت اچھے تھے وہ کہتے تھے کہ صائمہ تم بہت اچھی لڑکی ہو ایک دن تمہاری محبت اس کو واپس اس گھر میں لے آۓ گی اور سیاس لڑکی کو چھوڑ دے گا ۔ پر حالات تھے کہ منجلتے ہی نہ تھے ۔ مارنے کا دورانیہ زیادہ ہونے لگا ۔ بات بات پہ گالی دینا ناصر کا معمول بن گیا ۔ ناصر گھر آتے تو میں سہم جاتی کہ معلوم نہیں انہیں کیا برا گئے اور پھر میری شامت آجاۓ ۔اس دوران میری شادی کو ڈھائی مہینے کا عرصہ بیت گیا ۔ ایک دن جب ناصر نے پانی مانگا تو میں دینے لگی تو ناصر بولا کہ تم کیوں نہیں جارہی ہے گھر چھوڑ کر ؟ تم جاؤ تو میں رہا کو لے کر آؤں اس گھر میں اور یہ کہہ کر مجھے مارنا شروع کر دیا ۔ پھر اتنی زور کا دھکا دیا کہ میرا منہ جا کر میز سے لگا اور میرے دو دانت ٹوٹ گئے اور میں بے ہوش ہوگئی مجھے نہیں معلوم ناصر نے کب میرے بھائی کوفون کر کے بلایا اور کہا کہ آکے اپنی بہن کو لے جاؤ ۔ جب ہوش آیا تو میں ہسپتال میں تھی ۔ میرے ساتھ میرے ساس سر تھے اور بھائی میری حالت دیکھ کر رور ہے تھے ۔ اس دوران مجھے پتہ چلا کہ میں ماں بنے والی ہوں ۔ خیر بھائی مجھے اپنے ساتھ پیشا در لے آۓ ۔ پھر انہوں نے مجھ سے واقعہ کی تفصیلات معلوم کرنا چاہی میں نے شادی کی رات سے لے کر اب تک کے واقعات گوش گزار کئے اور سناتے ہوۓ اتنی روئی کہ ایک بار پھر میں بے ہوش ہوگئی ۔ میرے بڑے بھائی ندیم نے فیصلہ کیا کہ اب میں سسرال نہیں جاؤں گی اور ان لوگوں کے پاس ہی رہوں گی اگل ہفتے ناصر کی طرف سے ایک رجسٹری موصول ہوئی جس میں طلاق نامہ تھا ۔ اس بات پر مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں ذہنی طور پر اس کیلئے تیار ہو چکی تھی ۔ پھر میں نے ایک لڑکے کو جنم دیا جسکی پیدائش پہ دادا دادی آۓ اور وہ بہت معافی مانگ رہے تھے ۔ اپنے پوتے کیلئے کپڑے وغیرہ بھی لاۓ اور کہہ رہے تھے کہ صائمہ ہمیں معاف کردو ہم نہیں جانتے تھے کہ ہمارے بیٹے سے اتناظم ہوگا ۔ اس کے بعد میرا پھر ان سے کوئی رابطہ ند رہا ۔ امی مجھے دیکھ دیکھ کر کڑھتیں کہ اسے 19 سال کی عمر میں طلاق ہوگئی اب اسکی جوانی کیسے گزرے گی ! گھر میں بھا بھیاں ہیں کہیں کوئی زیادتی نہ کر دے ۔ لیکن میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ سب جانتے تھے کہ میں بے قصور ہوں۔اس دوران میرے لئے رشتے آئے لیکن کوئی پانچ بچوں کا باپ ہوتا تو کسی کی اولاد کی بھی شادی ہوچکی ہوتی ۔ میری ایک بھابھی کراچی کی تھی ۔ جب وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں کراچی گئی تو انہوں نے ایسے ہی کسی سے ذکر کیا کہ میری نند ہے تین سال کا بیٹا ہے طلاق ہوگئی ہے ۔شریف ملنساربھی ہے اور اعمرلز کی بھی کوئی رشتہ نظر میں ہو تو بتائیں ۔ جن سے انہوں نے بات کی ان خاتون کے بھتیجے نے ساری بات سن کر کہا کہ میں اس لڑکی سے شادی کرنے کو تیار ہوں ۔ راحیل کوسب لوگوں نے منع کیا کہ بے وقوفی کرنے جار ہے ہو ۔ وہ عورت تین سال کے بچے کی ماں ہے اور تمہاری شادی بھی نہیں ہوئی ۔ اس پر راحیل نے کہا کہ کیا کسی غیر شادی شدہ کا شادی شد و عورت سے نکاح کرنا جرم ہے یا گناہ ؟ اس بات کی اجازت نہیں اسلام بھی دیتا ہے اور وہ مظلوم اور بے تصور عورت ہے ۔ اگر میں اس کو خوشی دینا چاہتا ہوں تو تم سب کو کیا تکلیف ہے ۔ آج کل معاشرے میں ہم ہندوؤں جیسی باتیں لے آۓ ہیں کہ طلاق یافتہ عورت یا بیوہ عورت شادی نہیں کرسکتی ۔ اگر ہم نے اس سوچ کو تبد میں نہ کیا تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاۓ گا ۔ اس پر کسی نے کہا کہ نہ تم نے صائمہ کو دیکھا ہے نہ اس کے حالات پتہ ہیں ۔ پھر کیوں اتنی طرف داری کر رہے ہو کیا پتہ صائمہ ہی ٹھیک نہ ہو ۔ راحیل نے کہا کہ اگر ووٹھیک نہ ہوتی تو تین سال تک اپنی ماں کے گھر نہ بیٹھتی کسی اور کی اب تک ہو جاتی ۔امی آپ میرا رشتہ صائمہ کیلئے لے کر جائیں ۔ خیر یوں میری شادی راحیل سے ہوئی اور میں کراچی میں اپنے بیٹے کے ساتھ آگئی ۔ راحیل بے پناہ پیار کرنے والے شوہر ثابت ہوۓ میرا اور میرے بیٹے کا بہت خیال رکھتے ۔ جب میرا بیٹا چار برس کا ہو گیا تو اسے بہترین سکول میں اس کا داخلہ کرا دیا ۔ سسرال والوں کو میری طرف سے جو خدشات لائق تھے ۔ دھیرے دھیرے دور ہونے لگے ۔ بہت جلد میں نے سسرال والوں کا اور راحیل کا دل جیت لیا ۔ اب ہر طرف سے بھابھی کی رائے مانگنا ضروری سمجھا جانے لگا ۔ جب میرے چھوٹے دیور کی شادی کا ذکر چھڑا تو میری ساس نے صاف کہہ دیا کہ میں اگر کہیں اور سے بہولاؤں گی تو پر نہیں کیسی نکلے گی ۔لہذا صائمہ کی چھوٹی بہن سمیہ کا رشتہ اپنے بیٹے کیلئے لینا چاہتی ہوں ۔ تم لوگوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے میہن کر میں مسکرا پڑی اور راحیل نے پیار بھری نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں صائمہ شکر یہ کہ تم نے اپنے حسن سلوک سے میرامان رکھ لیا اور یوں سمیہ میری دیورانی بن کر کراچی آ گئی ۔ آج میں ایک بھر پور زندگی گزار رہی ہوں ۔ راحیل سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں ۔ ساس سسر ہم دونوں بہنوں سے بے پناہ خوش ہیں ۔ میری کوئی سند نہیں سر اکثر کہتے ہیں اللہ نے مجھے دو بیٹیوں سے نوازا ہے ۔ یہ میری بہو میں نہیں ہیں اب اندازہ ہوتا ہے کہ اگر میں بھی پہلی شادی کے بعد خوف میں مبتلا ہو جاتی اور دوسری شادی نہ کرتی تو میری زندگی پی نہیں کن مشکلات میں گھری ہوتی اور میں اپنے بیٹے کو کیسے پالتی ۔ ( بشکریم دین ) شماره 157 ) 


Tags

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)