عورت کے مضبوط ہونے کا دارومدار اس کے مضبوط کردار پر ہے ۔ ایک با حیا ، با شعور ، عصمت مآب ، اچھی سیرت و کردار کی عورت ہی نہ صرف اچھا خاندان تشکیل دے سکتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی سنوار سکتی ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ عورت کو شعور دیا جاۓ ۔ اس کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھر پور توجہ دی جاۓ ورنہ صرف یتعلیم جو دور رواں میں رائج ہے یہ عورت کو اس کی ذات کا شعور تو نہیں دے رہی البتہ بی طرز تعلیم بے راہ روی کے لیے راہ ضرور ہموار کر رہا ہے ۔ اس بات کو علامہ اقبال نے اس طرح بیان فرمایا ہے : جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن ی کہتے ہیں اسی علم کوار باب نظر موت آۓ روزتعلیمی اداروں سے پنپنے والے قابل مذمت واقعات ،بنت حوا کی آزاد خیالی کی وجہ سے ان کے ساتھ پیش آنے والے خوفناک حادثے اور اداروں میں’’طالبات ‘ ‘ میں نئے کی عادت کی بڑھتی ہوئی شرح عورت کے تجاہل کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے ۔ اس سے پہلے کہ تحقیر کا یہ سلسلہ مزید بڑھے حکومتی سطح پر اس ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ پردہ اور حیا کی اہمیت ، افادیت اور عورت کا شعور اور خود بیدار کرنے کے لیے ملک گیر مہم چلائی جاۓ ۔ دور رواں میں عورت جو بنیادی غلطیاں کر رہی ان کا احساس دلانے کے ساتھ طلاق کی ناپسندیدگی واضح کی جاۓ ۔ خاندان مختصر کرنے پر آگاہی سٹال لگانے کی بجاۓ خاندان کی خوشحالی اور خوشگوار زندگی میں عورت کے کردار اور ذمہ داری کی اہمیت کی آگاہی پر سٹال لگائے جائیں ۔ اسی طرح دور حاضر کے فتنوں سے روشناس کروایا جاۓ ۔ آج کی عورت اپنی اقدار اور روایات سے نا آشنا ہے ۔ گھر بنانے سے پہلے الگ گھر کی فرمائش کر رہی ، رشتوں کے تقدس کو پامال کر رہی ، بچوں سے ان کے خوبصورت رشتے چھین کر انہیں ٹیکنالوجی کے رحم کرم پر چھوڑ رہی ، سسر کو ایدھی سنٹر منتقل کرتے وقت ساس کو یہ یاد نہیں رہا کہ انہوں نے کل اپنی فصل کی کٹائی کرنی ہے۔ ۔ یاد ہے تو انڈین ڈراموں سے سیکھی ہوئی سازشیں ، آج کی عورت کو اپنی اقدار ، باہمی احترام کا شعور دینا ہوگا ۔ اپنی اور دوسری تہذ یوں کا امتیاز سمجھانا ہوگا ۔