پیشہ ورانہ سمت انڈر اسٹڈیز کے لیے بنیادی ہے۔
علم حاصل کر نا بشعور کا ہونا جبکہ کیرئیر روز گار کا وسیلہ ہے ۔ جو جانتا ہے اس نے کس کیرئیر کا انتخاب کرنا ہے وہ بھی بھی معاشی مسائل کا شکار نہیں ہوتا ۔ ایک تحقیق کے مطابق مستقبل کی زندگی کے لیے پیشے کے انتخاب کا ستیح وقت آٹھویں جماعت کے بعد سے شروع ہوتا ہے ۔ آٹھویں جماعت کے بعد کی تعلیم زندگی کا اہم مرحلہ ہے کیونکہ مڈل تک کی تعلیم سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ طالبعلم کس مجیکٹ میں بہت اچھا ہے اور اسے اپنی صلاحیت کے مطابق آئندہ اپنے کیکٹس کا انتخاب کرنا چاہے ۔ اس انتخاب میں سب سے اہم کردار والد مین اور اساتذہ کا ہوتا ہے y subjects جن کو بخوبی ایک بچے کی پسند نا پسند اور صلاحیتوں کا اندازاہ ہوتا ہے اور یہ کہ بچہ کس سبجیکٹ میں بہت اچھا ہے اور کس سبجیکٹ کو پڑھنے کی صلاحیت اس میں نہیں ہے ۔
والدین اور اساتذہ کو طالبعلم کی کیرئیر
کاؤنسلنگ میں مدد کرنی چاہیے اور طلباء کو بھی چاہیے کہ دو اپنے اساتذہ سے راہنمائی حاصل کر میں ۔ کیرئیر پلاننگ کے لیے طالبعام کو اپنی شخصیت کا بخوبی جائزہ لینا چاہیے ۔ مثلا اپنے اندر کا جائزہ لیں ، اپنی دلچسپیوں ، مہارت ، ذاتی خصوصیات اور اقدار کو پہچانئے ۔ یہ جانے کی کوشش کریں کہ آپ کو کون کون سے کام پسند ہیں ، آپ کے اندر کون کون کی صلاحیتیں موجود ہیں ، اپنے گولر سیٹ کر میں اور دیکھیں کہ آپ کیا ننا چاہتے ہیں ، آ پکی خواہشات کیا ہیں ۔ سب سے بڑی بات طلباء والد ین کو چاہیے کہ بچوں پر اپنی مرضی مسلط شدکر میں ۔ بعض اوقات بچے والدین کے پریشر میں آ کر ایسے نیکلس کا انتخاب کر لیتے ہیں جن میں بچوں کی انہیں نہیں ہوتی اور پھر وہ ناکامی کا شکار ہو تے ہیں ۔ والدین کو چاہیے کہ اس معاملے میں
اپنے بچوں کی راہنمائی کر میں اکے اساتذہ سے ملیں اور اپنے بچے کی قابلیت کو جانتے ہ سے بیس کے انتخاب میں اپنے بچوں کی مددکر ہیں ۔ کا ایک انسان اکیلا کچھ نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ انسانوں کو ایک ک دوسرے کی مدد کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔ اس لیے کیرئیر پلانگ ت سے متعلق مختلف افراد سے رابطہ کریں ۔ مثلا والدین ، اسا تذہ ، JOB Are my s approprias Wh wh Can I really get there ? What am I really going to do ? REER wear it est in rectionl KS kit have dans ? کیلئے کیرئیر کی رہنمائی ضروری کیرئیر کونسلر اور آپکے قریبی ساتھی ۔ آٹھویں جماعت کے طالبعلم ابھی کچے ذہن کے مالک ہوتے ہیں انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ائے اندر کیا کیا صلاحیتیں موجود ہیں اور انکو زیادہ نکھارنے کے لیے کن حکمت عملیوں کی ضرورت ہے ۔ طلباء کو بچپن سے ہی اس قابل بنانا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ وہ کیسے اپنی صلاحیتوں کو جانچے اور اسکا کیسے انتخاب کرے ۔ سکولوں اور کالجوں میں ایسے ماہر اساتذہ کا ہونا چاہیے جو طالبعلم کی رہنمائی کر میں اور انکی صلاحیتوں کو ضائع نہ ہونے دیں تا کہ وہ مستقبل میں کامیاب شہری کے طور پر اپنا آپ منواسکیں ۔ ماہرین کے مطابق غلط کیرئیر کا انتخاب بہت سے نقصانات کا حامل ہے جس سے نہ صرف ایک فرد متاثر ہوتا ہے بلکہ پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے ۔ کئی ڈگری ہولڈرز اپنی ڈگریاں لیے گھومتے پھرتے ہیں کیونکہ انہوں نے پہلے موزوں شعبے کا انتخاب نہیں کیا ہوتا اس لیے دو عملی میدان میں خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکتے ۔ نامورامریکی مصنف نپولین کے مطابق دنیا میں کوئی بھی شخص اس شعبے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جس میں اسکی دلچسپی نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے طلباء جو غلط شعبہ اپنا لیتے ہیں وہ عموما ژانی پریشانی کا شکار رہتے ہیں جس سے انہیں بعض اوقات مایوی ، ڈپریشن ، نیند کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان تمام مسائل کے پیش نظر ضروری ہے کہ طلباء کوکم عمری میں کیرئیر کا ؤنسلنگ کے متعلق رہنمائی فراہم کی جائے تا کہ وہ مستقبل میں پریشان نہ ہوں ۔ ۔ امریکہ میں کی گئی تحقیق کے مطابق جن طلباء کی تعلیمی میدان میں
کیرئیر کا ؤنسلنگ کی جاتی ہے دو عملی میدان میں دوسرے طلباء کی نسبت زیادہ با شعورا اور کامیاب ہوتے ہیں ۔ نامور انٹر پرینیور سٹیو جابز کا کہنا ہے کہ کسی بھی شعبے میں معرکہ سر لگن شامل ہو ۔ اس لیے بھی بھی ایسا شعبہ اختیار نہ کر میں جو آ پکی صلاحیتوں پر پورا نہ اتر تا ہو ۔ والدین اور اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ کیرئیر کے انتخاب میں بچوں کی رہنمائی کر یں اور زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے بچوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں کو غور سے نہیں ۔ زیادہ اشرف المخلوقات میں پائی جاتی ہے اور بلاشبہ اس بیماری کامل تین الفاظ شکر میں ہی ہے ۔شکر کر نے والوں کے لئے تو ان کے جسم
لائبریری لاطینی زبان کا لفظ ہے
جو لا ئجر ‘ ‘ سے بنا ہے اس کا معنی ہے کتاب ۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھئے کہ لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کتابوں ، رسالوں ، اخباروں اور معلوماتی مواد کو جمع کیا جا تا ہے ۔ اردواور فارسی میں اس کیلئے کتب خانہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب کہ عربی میں اس کا مترادف لفظ خزای الکتب الکتبہ اور دارالکتب ہے ۔ لائبریری دراصل ایسا عظیم مقام ہے جہاں ہزاروں سالوں کا فکری وعلمی اثاثہ لاکھوں کروڑوں ارباب علم و دانش کی دینی اور قلمی کاوشوں کا ثمر اور حاصل جمع ہوتا ہے ۔ جہاں الہامی کتب بعض انسانی استعداد اور شعوری وسعت کے مفاہیم کے لفظی مجموعے محدثین ومفسرین کی تفاسیر وشروحات کا مجموعہ بنشین و مفکرین کی تحقیقات وافکار کا علمی خزانہ مصنفین دمترجمین کی کتب و تراجم انسانی تحریرات کا سرمایہ ، علوم وفنون کی دولت ، شاعروں ، نثر نگاروں ، ادیبوں اور خلیوں کی قلمی فتوحات کا ذخیرہ یکجا ایک حمت کے نیچے میسر ہوتا ہے
۔ لائبریری میں داخل ہونے والا
لاکھوں نابغہ روز گا رصفحہ ہستی کے شاہ کار لوگوں سے بغل گیر اور ہم کلام ہوتا ہے اور ان کی فکری روشنی سے جہاں ذہن و قلب کو جگمگاتا ہے ۔ لائبریری کا ایک سب سے اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ ہر طالب علم ہر کتاب کو نہیں خرید سکتا مگر لائبریری میں انہیں کئی بہترین کتابیں میسر ہوسکتی ہیں ۔ لائبریری صرف کتابیں یا کتب بینی کیلئے ایک
لائبریری صرف شہزادی ماحول مہیا نہیں کرتی
بلکہ یہ معاشرے کا وہ حصہ ہے جہاں با قاعدہ مستقبل کی نشو ونما ہو رہی ہوتی ہے ۔ کہنے کو تو پاکستان میں ہزاروں لائبریریاں ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد اتینا اکیڈمک لائبریریز کی ہے ۔ یعنی وہ لائبریری جو کسی تعلیمی ادارے میں قائم ہو ۔ ہمارے ملک میں عمومی طور پر روحان یہ ہے کہ ہو سکے ۔ جیسا کہ ٹیکنالوجی کا دور ہے لہذا ہمیں اپنی لائبریریز کو بھی بچے جب تک چھوٹی جماعتوں میں ہوتے ہیں وہ پڑھنے میں زیادہ ڈکویلا ئیز کرنا چاہئے ۔ آئی سی ٹی ٹولز متعارف کروانے چاہئیں ، ای دلچسپی لیتے ہیں ۔ بڑے ہوتے ہی کتب بینی کا شوق رفتہ رفتہ کم ہوتا بک کی طرف جانا چاہیے ، موبائل لائبریری متعارف کروانی چاہیے جا تا ہے اور کالج پہنچتے پہنچتے وہ صرف اپنی نصاب کی کتابوں تک ہی ہر علاقہ کی لائبریری ہونی چاہیے تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ کتب کا محدود ہو جاتے ہیں ۔ مطالعہ یا کتب بینی کا ہماری شخصیت پر بڑا گہرا مطالعہ کر سکیں ۔ وقت اور حالات کے مطابق خود کو بدلنا ضروری اثر پڑتا ہے ۔ جو بچے زیادہ کتابیں پڑھتے ہیں ان کی شخصیت میں ہے ۔ پاکستان چونکہ ایک ترقی پزیر ملک ہے اور یہاں کی اکثریت نکھار پیدا ہو جا تا ہے ، وہ اچھے لکھاری بھی بن جاتے ہیں ۔سب آبادی مالی اور معاشی مسائل کا شکار ہے یہاں لائبریری کی اہمیت سے بڑھ کر ان میں مزید سیکھنے کا عمل تیز تر ہو جا تا ہے ۔ مزید بڑھ جاتی ہے ۔ نچلے اور متوسط طبقے کے لئے مہنگی کتا بیں خریدنا زمانہ طالب علمی سے ہی بچوں کو کتب بینی کی ترغیب دینی چاہیے مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے لہذا ان حالات میں لائبریری کا تا کہ وہ با قاعدگی سے لائبریری کا رخ کر میں اور ان کی ذہنی تربیت استعمال زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے ۔
خواہش رکھتے ہو ؟
ہاں ۔ ! شدید خواہش ؟ ۔ شدیدترین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چاہتے ہو پوری ہو ؟ ہاں ۔ا شدت سے ۔۔۔ خواہش ۔ کیسی خواهش خواہش ؟ وہ جو بنیاد ہے پوری ہونے کی ۔۔۔ بنیاد ؟ کس کی ؟ باقی گا ۔ چلو اتنے دنوں کی حسرت تو مکمل ہوئی ۔۔۔ اگر اس سے خواہشات کی ۔ پوری ہوگئی تو کیا کرو گے ؟ خوشی ملے گی ۔ ۔۔۔ مشروط خواہشوں میں سے کوئی ایک پوری نہ ہوئی پھر ۔۔۔۔ ؟ دکھ صرف خوشی ؟ ہاں ۔۔۔ ! شاید خوشی کے ساتھ ساتھ سکون بھی ملے ہوگا ۔۔۔ کتنا ؟ بہت زیادہ ۔ ۔ ۔ ۔ ! یا کم ، ہوسکتا ہے نہ بھی ہو ۔۔۔ گا ۔۔۔ سکون کیسے ؟ باقی ادھوری رہ جانے والی خواہشوں کا مکمل ہونا ایک خواہش کے پورے نہ ہونے کا دکھ زیادہ یا باقی سب خواہشات ممکن ہو جاۓ گا ۔۔۔ تم یہ کہنا چاہتے ہو ۔۔۔۔۔ کہ ایک خواہش کی تکمیل کی خوشی زیادہ ؟ ۔ ۔ ۔ فیصلہ مشکل ۔۔۔۔۔ ہاں شاید دکھ کی تحمیل باقی خواہشوں سے مشروط ہے ؟ ہاں ۔ ۔ ۔ ! بلکل ۔ ایک زیادہ ۔ ۔ ۔ چلو ۔ ۔ ۔ ! مان لو ، تمام خواہشات مکمل ہو جائیں ، تب و مکمل ہو جاۓ تو باقی سب کے پورے ہونے کے امکانات بڑھ خوشی کتنے دن تک ساتھ رہے گی ؟ شاید ساری زندگی ۔۔۔۔ ! جائیں گے ۔ ۔۔ سو فیصد ؟ نہیں ۔۔ا شاید ستر اسی فیصد یا شاید ناممکن ؟ کیوں ؟ کیسے ؟ خوشی کا دورانیہ ، غم دکھ اور حسرت کے دا زیادہ ۔ ہاں کم بھی ہو سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ چلو مان لو وہ ایک خواہش جو مقابلے میں کم ہوتا ہے ۔۔۔ اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو ؟ کیا تم ہر بیساکھی بن کر دوسری خواہشات کے مکمل ہونے کا سہارا ہے ، پوری ان سب سے گزرے ہو ؟ ہاں میں نے سہا ہے یہ سب ۔ ۔ ۔ ۔ ہوگئی ۔ پھر کیا کرو گے ؟ پھر ۔۔۔ ؟ ۔ ۔ ہاں پھر ، کیا کرو گے ؟ مزہ خوشی وقتی ہوتی ہے ۔ کچھ پلوں میں میسر آتی ہے بلھوں میں غائب لوں گا ، خوش ہوں گا ۔ خواہشات کے مکمل ہونے پرمطمئن ہو جاؤں ۔۔۔ اتنی جلدی کیسے ؟ بلکل ۔۔۔ خواہش مکمل ہوئی ،
مطلب وہ چیز ،
اس سے جوڑے نہ مکمل ہونے کا ڈر مٹھی سے ریت کی طرح سرک گئے ۔ ڈراپنے ساتھ خوشی کو لے جا تا ہے ۔ ۔ ۔ ڈر اور خوشی کا کیا تعلق ؟ ہے ناں ۔۔۔ ! جب حسرت پوری ہوئی ، ناممکن ہونے کے اندیشے بھی مکمل طورختم ہوۓ ، دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو ڈر غائب ہوا ، ڈر گیا تو کیارہ گیا ؟ خوشی ۔۔۔ ! جوقی وقتی ؟ ڈر کے بعد رہ جانے والی خوشی پر وہ غم زیادہ اثر رکھتا ہے جسکے پورے ہونے کی حسرت آپ دل میں لیے گھومتے پھرتے تھے ۔ جس پر وقت کی ان گنت مٹی کی نہیں تو پڑ گئیں لیکن ناممکن کی کسک چیوٹم کی طرح چپکی گئی ۔ کیا مکمل ہو چکی خواہش کے پیچھے ناممکن رہ جانے والے غم ہیں ؟ ۔۔۔ بلکل ۔۔۔۔ ! ہر خوشی کے بعد لا حاصل غم ہے ، ہرسکون کے آگے بے سکونی موجود ہے ، ہر عروج کے بعد ایک زوال ہے ۔ ہر زندگی کی منزل موت ہے ۔ ناممکن بھی ممکن ہوگا نا جب اس کے ساتھ جڑے’نا ‘ ‘ کو ہٹایا جائے ۔ ’ ’ ناممکن ‘ ‘ کوممکن کر دوتو آگے ایک اور خواہش’’ناممکن‘‘اور’’ممکن ‘ ‘ کے جھولے جھولتی ملے گی ۔